سرورِ قلب و جاں کی چشمِ التفات چاہئے

سرورِ قلب و جاں کی چشمِ التفات چاہئے

برائے نعت انگبین لفظیات چاہئے


میں لکھنا چاہتا ہوں مدحتِ حبیبِ کبریا

ختن کے مشک سے بھری ہوئی دوات چاہئے


رہے نظر میں بعدِ موت بھی دیارِ مصطفیٰ

بقیعِ پاک میں زمین چار ہات چاہئے


زباں کو شاہِ انبیاء کا تذکرہ عزیز ہے

سماعتوں کو معدنِ کرم کی نعت چاہئے


خیال ہر گھڑی ہو دن میں حسنِ بے کنار کا

سجا ہو جس میں خواب آپ کا وہ رات چاہئے


کڑی ہو دھوپ جس قدر ہزار سال کا ہو دن

بروزِ حشر شافعِ امم کا سات چاہئے


ارے ادیبِ بے ہنر ادب سے ہے تو بے خبر

اطاعتِ رسول کر اگر نجات چاہئے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

پڑا ہوں سرِ سنگِ در مورے آقا

اگر العطش لب پہ ہم باندھتے ہیں

نطق میرا سعدی و جامی سے ہم آہنگ ہو

میں کرتا ہوں توصیفِ ذاتِ گرامی

شان ان کی ملک دیکھتے رہ گئے

نوازا جاتا ہے سنگِ در پر گداؤں کو بار بار واللہ

درود ان پر سلام ان پریہ ورد رائج ہے دوجہاں میں

دور دکھ کی ردا ہو گئی ہے

آتا ہے یاد شاہِ مدینہ کا در مجھے

وہ رہے گا سدا حکمراں