میں کرتا ہوں توصیفِ ذاتِ گرامی

میں کرتا ہوں توصیفِ ذاتِ گرامی

اگرچہ نہیں ہوں میں سعدی و جامی


فقط اتنی خواہش ہے حرفِ سخن کی

رہے میری نس نس میں ان کی غلامی


نگاہیں جمی ہیں مری راستے پر

پیامِ سفر لے کے آئے پیامی


ازل سے ہے تشنہ یہ تیرا بھکاری

مٹا دیجئے یا نبی تشنہ کامی


ترا نام ہے رفعتوں پر فروزاں

تجھی کو ملا ہے عروجِ دوامی


کبھی خواب سر گوشیاں ہوں مقدر

سماعت کروں تیری شستہ کلامی


ترے سنگِ در کی ہے کیا شان آقا

فرشتے مچلتے ہیں بہرِ سلامی


بچھائی ہیں پلکیں ترے راستے میں

عنایت ہو پلکوں کو اوجِ خرامی


وہ تیرے خیالوں میں مشغول بندہ

تری نعت کہتا ہے اشفاقؔ نامی

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

شاہِ مدینہ! طلعت اختر تورے پیّاں میں

صحنِ گلشن میں گھٹا نور کی چھائی ہوئی ہے

پڑا ہوں سرِ سنگِ در مورے آقا

اگر العطش لب پہ ہم باندھتے ہیں

نطق میرا سعدی و جامی سے ہم آہنگ ہو

شان ان کی ملک دیکھتے رہ گئے

سرورِ قلب و جاں کی چشمِ التفات چاہئے

نوازا جاتا ہے سنگِ در پر گداؤں کو بار بار واللہ

درود ان پر سلام ان پریہ ورد رائج ہے دوجہاں میں

دور دکھ کی ردا ہو گئی ہے