نور ہی نور ہے، دیکھو تو انسان لگے

نور ہی نور ہے، دیکھو تو انسان لگے

پڑھنے لگ جاؤ جو اس کو تو وہ قرآن لگے


اُسکی ہر بات ہے احکامِ الہٰی کی طرح

کرو ایمان کی تشریح تو ایمان لگے


اس کو چاہا اُسے سوچا اُسے سمجھا ہے بہت

عدل ہی عدل ہے احسان ہی احسان لگے


اُس کے ہاتھوں کے نشاں ڈھونڈھنا پتواروں پر

خود بخود ناؤ کنارے پہ اگر آن لگے


ہم کو آتی ہے ہر اک پھول سے اسکی خوشبو

زندگی اس کے خیالات کا گلدان لگے


اسکی آوازِ قدم پر ہوئی دنیا تعمیر

وہ کہیں غار حرا اور کہیں فاران لگے


رائے کیا اپنے ہی بارے میں مظفر دے گا

لوگ کہتے ہیں کہ اس دور کا حسّان لگے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- صاحبِ تاج

دیگر کلام

رحمت دو جہاں پر سلام

پُرسان عمل پیشِ خدا کوئی نہ ہوگا

آپؐ کے بعد اور کیا چاہیں

تخلیق ہوا ہی نہیں پیکر کوئی تم سا

روشنیِ انسان تھی

سایہ کیسا ہے نور کے پیچھے

سارے پیمبر وں کی امامت کے واسطے

کسے خبر، تری رحمت کی حد کہاں تک ہے

مہرباں ہیں کتنے آقاؐ، آپ بھی

روح نے اللہ سے عشقِ پیمبر لے دیا