قربِ حق کا پتہ چاہیے

قربِ حق کا پتہ چاہیے

زندگی کا مزہ چاہیے


مال و زر کی نہیں کچھ طلب

بس نبی کی عطا چاہیے


سر پہ رکھنے کو اے مصطفیٰ

آپ کا نقشِ پا چاہیے


ہر مَرض سے ملے گی شفا

وردِ صلِّ علیٰ چاہیے


بحرِ غم میں ہے کشتی پھنسی

اک نظر ناخدا چاہیے


باغِ جنت کی خواہش نہیں

بس نبی کی عطا چاہیے


رنج کی اس کڑی دھوپ میں

ظِلّ زُلفِ دوتا چاہیے


یا نبی، یا نبی، یا نبی

دردِ دل کی دوا چاہیے


دہر میں، قبر میں حشر میں

آپ کا آسرا چاہیے


نعت گوئی کی دولت ملے

فکر و فن کی ردا چاہیے


دیدہ و دل کی بینائی کو

سرمہ”مازاغ“ کا چاہیے


دل کی بنجر زمیں ہو ہری

اب کرم کی گھٹا چاہیے


میرے دل کی شبستان میں

الفتوں کی ضیا چاہیے


تیرے احمدؔ کو اے مصطفیٰ

کلکِ احمدؔ رضا چاہیے

کتاب کا نام :- حَرفِ مِدحَت

دیگر کلام

عشقِ نبی کی شمع جو دل میں جلا سکے

پیامِ خدا عام فرمانے والے

سب کتابوں میں قرآن سب سے الگ

خواب میں گنبد و مینار نظر آتے ہیں

نبی کی زیارت جسے ہو گئی ہے

شاہوں کے سامنے نہ سکندر کے سامنے

بیکسی مفلسی نے ہے مارا مجھے

بعدِ خدا بزرگ ہے عالم میں جس کی ذات

آپ کے جیسا خوش جمال کہاں

غم سینے میں اے سیّدِ ابرار بہت ہے