شاہوں کے سامنے نہ سکندر کے سامنے

شاہوں کے سامنے نہ سکندر کے سامنے

منگتا کھڑا ہے روضۂ انور کے سامنے


اللہ رے حسنِ شاہِ مدینہ کی تابشیں

نادم ہے شمس روئے منوّر کے سامنے


پیشانی سب کی جھکتی ہے کعبہ کے روبرو

کعبہ جھکا ہے روضۂ اطہر کے سامنے


ہے آرزو یہی یہی حسرت ہے دل کی اب

مدفن بنے تو روضہء انور کے سامنے


ہیں دم بخود وہاں پہ فصیحانِ با کمال

کس کی مجال آئے پیمبر کے سامنے


رحم و کرم و عفو و شفاعت کی چاہ میں

مجرم کھڑے ہیں شافعِ محشر کے سامنے


گل ہوگئے چراغِ ہدایاتِ رہبراں

دونوں جہاں کے مرشد و رہبر کے سامنے


سب کو طلب ہے رحمت و بخشش کی ہاں مگر

بخشش گدا ہے ساقیِ کوثر کے سامنے


اے کاش لب پہ نعت کا نغمہ لیے ہوئے

احمدؔ کھڑا ہو روضۂ انور کے سامنے

کتاب کا نام :- حَرفِ مِدحَت

دیگر کلام

پیامِ خدا عام فرمانے والے

سب کتابوں میں قرآن سب سے الگ

خواب میں گنبد و مینار نظر آتے ہیں

نبی کی زیارت جسے ہو گئی ہے

قربِ حق کا پتہ چاہیے

بیکسی مفلسی نے ہے مارا مجھے

بعدِ خدا بزرگ ہے عالم میں جس کی ذات

آپ کے جیسا خوش جمال کہاں

غم سینے میں اے سیّدِ ابرار بہت ہے

ہے فضلِ کردگار مدینہ شریف میں