رفعتوں کی انتہا تک جا کے واپس آگیا

رفعتوں کی انتہا تک جا کے واپس آگیا

خود کو چادر نُور کی پہنا کے واپس آگیا


رُک گیا تھا جس جگہ جبریلؑ اُس سے بھی پرے

پرچم انسانیت لہرا کے واپس آگیا


اپنے قدموں کی بہت ہی خوبصورت کہکشاں

راستوں کے درمیاں پھیلا کے واپس آگیا


اپنے اِک اِک امتی کا نام اک ہی رات میں

مغفرت کی لوح پر لکھوا کے واپس آگیا


سب جہانوں کے خدا سے محفل انوار میں

ہر طرح کی گفتگو فرما کے واپس آگیا

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

پَردہ با پَردہ نگاہوں سے اُٹھا آج کی رات

اس کو لطف و آگہی کا اِک نگر لکھا گیا

جو بھی گِرا زمیں پہ اُسی کو اُٹھا لیا

تعلق جوڑ لینا اور پھر محوِ ثنا رہنا

ہر اک موجود و لا موجود شے تعظیم کرتی ہے

سارے بڑوں سے تو ہی بڑا ہے خدا کے بعد

آپؐ کی سیرت کا اَب تک ذائقہ بدلا نہیں

دیارِ دل میں تیرے ذِکر سے نعتیں اُترتی ہیں

تری نظروں سے نظروں کا ملانا بھی ہے بے اَدبی

عنایت کا سمندر سامنے ہے بے نواؤں کے