آپؐ کی سیرت کا اَب تک ذائقہ بدلا نہیں

آپؐ کی سیرت کا اَب تک ذائقہ بدلا نہیں

کون سا دنیا میں ورنہ قاعدہ بدلا نہیں


آج بھی ممکن ہے اپنے اپنے چہرے کی شناخت

صورتیں بدلی ہیں لیکن آئینہ بدلا نہیں


آج بھی زندہ ہے اُن معصوم قدموں کی مٹھاس

آج بھی غارِ حرا کا راستہ بدلا نہیں


کارواں رستے میں رُک جائیں تو اِس کا کیا علاج

وادئ مہر و کرم کا فاصلہ بدلا نہیں


آج بھی رحمت کی وہ قوسِ قزح ہے ضوفشاں

آج بھی چشمِ کرم کا زاویہ بدلا نہیں


آج بھی لازم ہے انجؔم سب پہ اس کا احترا م

آج بھی لاترفعو کا سلسلہ بدلا نہیں

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

جو بھی گِرا زمیں پہ اُسی کو اُٹھا لیا

تعلق جوڑ لینا اور پھر محوِ ثنا رہنا

ہر اک موجود و لا موجود شے تعظیم کرتی ہے

رفعتوں کی انتہا تک جا کے واپس آگیا

سارے بڑوں سے تو ہی بڑا ہے خدا کے بعد

دیارِ دل میں تیرے ذِکر سے نعتیں اُترتی ہیں

تری نظروں سے نظروں کا ملانا بھی ہے بے اَدبی

عنایت کا سمندر سامنے ہے بے نواؤں کے

اُجالے سرنگوں ہیں مطلع انوار کے آگے

آدمی کیا پتھروں پر بھی اَثر انداز ہے