تری نظروں سے نظروں کا ملانا بھی ہے بے اَدبی

تری نظروں سے نظروں کا ملانا بھی ہے بے اَدبی

تری سرکار میں پلکیں اُٹھانا بھی ہے بے اَدبی


فرشتے جن کی مٹی پر قدم رکھتے جھجکتے ہیں

مِرے جیسوں کا اُن گلیوں میں جانا بھی ہے بے اَدبی


وہ ناداں ہیں جو اُونچا بولتے ہیں تیری نگری میں

وہاں تو بے تکلّف مُسکرانا بھی ہے بے اَدبی


وہاں کی دھوپ میں ٹھنڈک ہے جنت کے مکانوں کی

وہاں کی دھوپ سے خود کو بچانا بھی ہے بے اَدبی


کنارے پر کھڑا رہنا علامت کم نگاہی کی

تری موجوں میں لیکن ڈوب جانا بھی ہے بے اَدبی


وہاں جانے کی خواہش کا نہ ہونا بھی ہے گستاخی

وہاں پر جا کے انجؔم لوٹ آنا بھی ہے بے اَدبی

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

ہر اک موجود و لا موجود شے تعظیم کرتی ہے

رفعتوں کی انتہا تک جا کے واپس آگیا

سارے بڑوں سے تو ہی بڑا ہے خدا کے بعد

آپؐ کی سیرت کا اَب تک ذائقہ بدلا نہیں

دیارِ دل میں تیرے ذِکر سے نعتیں اُترتی ہیں

عنایت کا سمندر سامنے ہے بے نواؤں کے

اُجالے سرنگوں ہیں مطلع انوار کے آگے

آدمی کیا پتھروں پر بھی اَثر انداز ہے

تری ہری بھری دُعا کے سائبان میں رہوں

چہرے پہ خواہشوں کا لکھا بولنے لگے