تری ہری بھری دُعا کے سائبان میں رہوں

تری ہری بھری دُعا کے سائبان میں رہوں

مری یہ التجا کہ میں تری اَمان میں رہوں


مرا جنوں رہے سدا ترے ہی اختیار میں

میں ایک تیر کی طرح کڑی کمان میں رہوں


مجھے نہ چھو سکیں کبھی تھکی تھکی مسافتیں

میں دو جہاں کی سرحدوں کے درمیان میں رہوں


مِری یہ آرزو کہ میں تراش کر وجود کو

ترے جواہرات کی بھری دکان میں رہوں


مرا سفر نہ ختم ہو ترے وصال کے بغیر

میں جب تلک جیوں تری طرف اڑان میں رہوں

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

دیارِ دل میں تیرے ذِکر سے نعتیں اُترتی ہیں

تری نظروں سے نظروں کا ملانا بھی ہے بے اَدبی

عنایت کا سمندر سامنے ہے بے نواؤں کے

اُجالے سرنگوں ہیں مطلع انوار کے آگے

آدمی کیا پتھروں پر بھی اَثر انداز ہے

چہرے پہ خواہشوں کا لکھا بولنے لگے

ٹھنڈی ٹھنڈی میٹھی میٹھی جسم و جاں کی روشنی

قصر دل کے مکیں یا نبی آپؐ ہیں

رسولِ اوّل و آخر کے لب اچھے زباں اچھی

وہ گنبد ہے کہ جس میں ہر صدا گم ہو کے رہ جائے