وہ گنبد ہے کہ جس میں ہر صدا گم ہو کے رہ جائے

وہ گنبد ہے کہ جس میں ہر صدا گم ہو کے رہ جائے

اک آئینے میں جیسے آئینہ گم ہو کے رہ جائے


وہ اپنی بند پلکوں کو ذرا کھولے تو آنکھوں میں

زمیں سے عرش تک کا فاصلہ گم ہو کے رہ جائے


اگر وہ روک لے بے داغ زندہ روشنی اَپنی

ہر اک شے صورتِ حرفِ دُعا گم ہو کے رہ جائے


اُسی کی رہبری سے کام چلتا ہے زمانے کا

وگرنہ ہر جگہ ہر قافلہ گم ہو کے رہ جائے


وہیں سے بالیقیں ہوتی ہے انجؔم ابتدا اُس کی

جہاں آفاقیت کی انتہا گم ہو کے رہ جائے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

تری ہری بھری دُعا کے سائبان میں رہوں

چہرے پہ خواہشوں کا لکھا بولنے لگے

ٹھنڈی ٹھنڈی میٹھی میٹھی جسم و جاں کی روشنی

قصر دل کے مکیں یا نبی آپؐ ہیں

رسولِ اوّل و آخر کے لب اچھے زباں اچھی

سخاوت ہی سخاوت ہے محبت ہی محبت ہے

گنبدِ خضرا کی چاہت کا نشہ آنکھوں میں ہے

میری آنکھوں میں عقیدت کی خوشی زندہ رہے

زمین و آسماں کا حُسن آپس میں ملا دینا

اُس کی منزل منفرد اُس کا سفر کچھ اور ہے