ٹھنڈی ٹھنڈی میٹھی میٹھی جسم و جاں کی روشنی

ٹھنڈی ٹھنڈی میٹھی میٹھی جسم و جاں کی روشنی

دو جہاں کو دینے آیا دو جہاں کی روشنی


اوڑھ کر نکلا بدن پر سچ کے سجدوں کا لباس

دے گیا محراب و منبر کو زباں کی روشنی


اُس کی آنکھوں میں گھلی ہے اُس کے باطن کی مٹھاس

جس طرح مسجد کے گنبد میں اذاں کی روشنی


لوحِ دل پر لکھ دیا ہے اُس کا اسمِ لازوال

لامکاں کو بخش دی ہے لامکاں کی روشنی


اُس کی رحمت کا اگر ہر شخص پر سایہ نہ ہو

پھر کہاں کی کہکشائیں پھر کہاں کی روشنی


اُس کے آنے سے چمک اٹھا ہے ہر شے کا مزاج

انجؔم اُس کے ساتھ اُتری آسماں کی روشنی

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

عنایت کا سمندر سامنے ہے بے نواؤں کے

اُجالے سرنگوں ہیں مطلع انوار کے آگے

آدمی کیا پتھروں پر بھی اَثر انداز ہے

تری ہری بھری دُعا کے سائبان میں رہوں

چہرے پہ خواہشوں کا لکھا بولنے لگے

قصر دل کے مکیں یا نبی آپؐ ہیں

رسولِ اوّل و آخر کے لب اچھے زباں اچھی

وہ گنبد ہے کہ جس میں ہر صدا گم ہو کے رہ جائے

سخاوت ہی سخاوت ہے محبت ہی محبت ہے

گنبدِ خضرا کی چاہت کا نشہ آنکھوں میں ہے