عنایت کا سمندر سامنے ہے بے نواؤں کے

عنایت کا سمندر سامنے ہے بے نواؤں کے

معطّر ہوتے جاتے ہیں بدن بھیگی دُعاؤں کے


درِ محبوبؐ کو چھُو کر نشے میں آگئی ہوں گی

بکھرتے جا رہے ہیں بال بے قابو ہواؤں کے


سلامی دینے آتے ہیں اُسے اُڑتے ہوئے بادل

لگے ہیں کان اُس گھر کی طرف اُڑتی رِداؤں کے


مدینے سے گزرتا ہے جھکا کر سر ہر اک منظر

قدم آہستہ ہو جاتے ہیں سورج کی شعاعوں کے


ابوذر بن کے اٹھتا ہے کوئی بن کر بلال انجمؔ

عجب ہیں ذائقے اُس دیس کے پیڑوں کی چھاؤں کے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

رفعتوں کی انتہا تک جا کے واپس آگیا

سارے بڑوں سے تو ہی بڑا ہے خدا کے بعد

آپؐ کی سیرت کا اَب تک ذائقہ بدلا نہیں

دیارِ دل میں تیرے ذِکر سے نعتیں اُترتی ہیں

تری نظروں سے نظروں کا ملانا بھی ہے بے اَدبی

اُجالے سرنگوں ہیں مطلع انوار کے آگے

آدمی کیا پتھروں پر بھی اَثر انداز ہے

تری ہری بھری دُعا کے سائبان میں رہوں

چہرے پہ خواہشوں کا لکھا بولنے لگے

ٹھنڈی ٹھنڈی میٹھی میٹھی جسم و جاں کی روشنی