اُجالے سرنگوں ہیں مطلع انوار کے آگے

اُجالے سرنگوں ہیں مطلع انوار کے آگے

ہے جگنو کی طرح سورج مرے سرکارؐ کے آگے


ہر اک پیکر سے بڑھ کر ہے مقدس آپؐ کا پیکر

ہر اک کردار کم تر آپؐ کے کردار کے آگے


جہاں پر آپؐ کی مہکی رہیں تنہائیاں برسوں

نشورِ حشر تک بیٹھا رہوں اُس غار کے آگے


میں لائق تو نہیں اِس کے مگر حسنین کے صدقے

عطا کردیں مجھے دو گز زمیں دربار کے آگے


نظر آتے ہیں بلکل صاف منظر عرش کے انجؔم

کوئی پَردہ نہیں اُس پردۂ دیوار کے آگے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

سارے بڑوں سے تو ہی بڑا ہے خدا کے بعد

آپؐ کی سیرت کا اَب تک ذائقہ بدلا نہیں

دیارِ دل میں تیرے ذِکر سے نعتیں اُترتی ہیں

تری نظروں سے نظروں کا ملانا بھی ہے بے اَدبی

عنایت کا سمندر سامنے ہے بے نواؤں کے

آدمی کیا پتھروں پر بھی اَثر انداز ہے

تری ہری بھری دُعا کے سائبان میں رہوں

چہرے پہ خواہشوں کا لکھا بولنے لگے

ٹھنڈی ٹھنڈی میٹھی میٹھی جسم و جاں کی روشنی

قصر دل کے مکیں یا نبی آپؐ ہیں