گنبدِ خضرا کی چاہت کا نشہ آنکھوں میں ہے

گنبدِ خضرا کی چاہت کا نشہ آنکھوں میں ہے

خوبصورت روشنی کا دائرہ آنکھوں میں ہے


ایک منزل دُور سے آواز دیتی ہے مجھے

ایک سیدھا اور سادہ راستہ آنکھوں میں ہے


رتجگوں کا نور پلکوں سے نہیں اُترا ابھی

لذتِ کیفِ مسلسل کا نشہ آنکھوں میں ہے


دیکھتا ہوں آئینے کو آئینے کی آنکھ سے

میری آنکھیں آئینے میں آئینہ آنکھوں میں ہے


ڈوبتے جاتے ہیں اس میں راستوں کے پیچ و خم

آنسوؤں کا جھلملاتا سلسلہ آنکھوں میں ہے


میں ابھی تک نیلگوں ماحول سے نکلا نہیں

حُسن میں ڈوبا ہوا اِک فاصلہ آنکھوں میں ہے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

ٹھنڈی ٹھنڈی میٹھی میٹھی جسم و جاں کی روشنی

قصر دل کے مکیں یا نبی آپؐ ہیں

رسولِ اوّل و آخر کے لب اچھے زباں اچھی

وہ گنبد ہے کہ جس میں ہر صدا گم ہو کے رہ جائے

سخاوت ہی سخاوت ہے محبت ہی محبت ہے

میری آنکھوں میں عقیدت کی خوشی زندہ رہے

زمین و آسماں کا حُسن آپس میں ملا دینا

اُس کی منزل منفرد اُس کا سفر کچھ اور ہے

سب سے بہتر ہے نام و نسب آپؐ کا

وہ دور مبارک تھا کتنا وہ لوگ ہی پیارے تھے کتنے