وہ دور مبارک تھا کتنا وہ لوگ ہی پیارے تھے کتنے

وہ دور مبارک تھا کتنا وہ لوگ ہی پیارے تھے کتنے

اُس چاند کی اُجلی بستی میں پُر نور ستارے تھے کتنے


طیبہ کے مکانوں پر کیسی انوار کی بارش ہوتی تھی

ہر ایک مکاں کے رستے میں جنت کے نظارے تھے کتنے


اُس شاہِ دو عالم کے آگے جو شخص بھی آیا ہار گیا

اب فرداً فرداً کیا کہیئے اُس جنگ میں ہارے تھے کتنے


فاران کی اونچی چوٹی سے یا غارِ حرا سے پوچھیں تو

انوار کی ندیاں کیسی تھیں اور نور کے دھارے تھے کتنے


پتھر کی زمینوں پر انجؔم سرکارِ دو عالم نے آکر

صدیوں سے جو اب تک قائم ہیں وہ نقش اُبھارے تھے کتنے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

گنبدِ خضرا کی چاہت کا نشہ آنکھوں میں ہے

میری آنکھوں میں عقیدت کی خوشی زندہ رہے

زمین و آسماں کا حُسن آپس میں ملا دینا

اُس کی منزل منفرد اُس کا سفر کچھ اور ہے

سب سے بہتر ہے نام و نسب آپؐ کا

لے کے انگڑائی زمیں جاگ اٹھی ہو جیسے

ترے باغی ترے شاتم بشر اچھے نہیں لگتے

جگہ جگہ تیریؐ محفل سجی ہوئی ہے ابھی

نبیؐ کے شہر میں بہرِ خدا آہستہ بولو

اتنی پاکیزہ کہاں مٹی کسی کے شہر میں