ترے باغی ترے شاتم بشر اچھے نہیں لگتے

ترے باغی ترے شاتم بشر اچھے نہیں لگتے

ترا سایہ نہ ہو جن پر وہ سر، اچھے نہیں لگتے


ترے اصحاب سے مجھ کو محبت کیوں نہ ہو آقاؐ

کسے اونچے گھنے ٹھنڈے شجر اچھے نہیں لگتے


ترے ذکرِ مقدس کی نہ ہوں روشن جہاں شمعیں

مجھے اُس شہر کے دیوار و در اچھے نہیں لگتے


قدم اتھتے ہیں میرے صرف شہرِ نُور کی جانب

مجھے بے نام سمتوں کے سفر اچھے نہیں لگتے


تری خوشبو نہ ہو محسوس مجھ کو جن مکانوں میں

وہ کتنے خوبصورت ہوں مگر اچھے نہیں لگتے


ترے قدموں کو چھُو لینے کی خواہش ہے مرے دل میں

مگر یہ خالی خالی رہ گزر اچھے نہیں لگتے


مری خواہش کہ میری خواہشیں زندہ رہیں انجؔم

مجھے خوابیدہ جذبوں کے نگر اچھے نہیں لگتے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

زمین و آسماں کا حُسن آپس میں ملا دینا

اُس کی منزل منفرد اُس کا سفر کچھ اور ہے

سب سے بہتر ہے نام و نسب آپؐ کا

وہ دور مبارک تھا کتنا وہ لوگ ہی پیارے تھے کتنے

لے کے انگڑائی زمیں جاگ اٹھی ہو جیسے

جگہ جگہ تیریؐ محفل سجی ہوئی ہے ابھی

نبیؐ کے شہر میں بہرِ خدا آہستہ بولو

اتنی پاکیزہ کہاں مٹی کسی کے شہر میں

کاغذ پر وہ نام لکھوں تو رو پڑتا ہوں

آپؐ کا اسمِ گرامی اِس قدر اچھا لگے