کاغذ پر وہ نام لکھوں تو رو پڑتا ہوں

کاغذ پر وہ نام لکھوں تو رو پڑتا ہوں

میں رحمت کے پھول چُنوں تو رو پڑتا ہوں


دل کے بندھن ٹوٹ گئے ہیں فرطِ غم سے

اب میں ان کی نعت کہوں تو رو پڑتا ہوں


جس جس نے بھی ساتھ دیا تھا آنحضرت کا

اُن سب کے میں نام گِنوں تو رو پڑتا ہوں


جن کے صدقے پار لگے گی سب کی نیّا

اُن کا مَیں فرمان سُنوں تو رو پڑتا ہوں


جن کی راہیں چُوم رہے ہیں قدسی کب سے

اُن کا پل بھر ساتھ نہ دوں تو رو پڑتا ہوں


اُن کا روضہ چُوم رہے ہوں جب دیوانے

اُس لمحے کا ساتھ نہ دوں تو رو پڑتا ہوں


جس کی خاطر پھول کھلے ہیں صحرا صحرا

اُس خوشبو کو یاد کروں تو رو پڑتا ہوں


دن میں کتنی بار ادب سے اُن کا انجؔم

جی بھر کر میں نام نہ لوں تو رو پڑتا ہوں

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

لے کے انگڑائی زمیں جاگ اٹھی ہو جیسے

ترے باغی ترے شاتم بشر اچھے نہیں لگتے

جگہ جگہ تیریؐ محفل سجی ہوئی ہے ابھی

نبیؐ کے شہر میں بہرِ خدا آہستہ بولو

اتنی پاکیزہ کہاں مٹی کسی کے شہر میں

آپؐ کا اسمِ گرامی اِس قدر اچھا لگے

لوحِ دل بے حرف ہے اس پر لکھا کچھ بھی نہیں

مدینے کے دیوار وہ در جاگتے ہیں

ہاتھ باندھے ہوئے خدمت میں کھڑی ہے دنیا

روشن ہوا تھا غارِ حِرا کل کی بات ہے