مدینے کے دیوار وہ در جاگتے ہیں

مدینے کے دیوار وہ در جاگتے ہیں

زمیں جاگتی ہے شجر جاگتے ہیں


دوعالم کی آنکھوں میں نیند آگئی ہے

دوعالم کے رہبرؐ مگر جاگتے ہیں


ابھی تک ہیں پہرے کی حالت میں دونوں

ابھی آپؐ کے ہم سفر جاگتے ہیں


ہوئے ہیں جو قربان شمع حِرا پر

چراغوں کی صورت وہ سر جاگتے ہیں


ابھی تک لرزتے ہیں دشمن کے لشکر

ابھی تک علی و عمر جاگتے ہیں


تراشے تھے جو آپؐ نے خود نظر سے

ابھی تک وہ لعل و گُہر جاگتے ہیں


کئی کروٹیں لی ہیں دنیا نے لیکن

جنھیں جاگنا تھا وہ گھر جاگتے ہیں


سیہ رات ہو یا ہو دن کا اُجالا

رفیقانِ خیر البشرؐ جاگتے ہیں


فسانہ نہیں یہ حقیقت ہے انجؔم

سبھی آپؐ کے ہم سفر جاگتے ہیں

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

نبیؐ کے شہر میں بہرِ خدا آہستہ بولو

اتنی پاکیزہ کہاں مٹی کسی کے شہر میں

کاغذ پر وہ نام لکھوں تو رو پڑتا ہوں

آپؐ کا اسمِ گرامی اِس قدر اچھا لگے

لوحِ دل بے حرف ہے اس پر لکھا کچھ بھی نہیں

ہاتھ باندھے ہوئے خدمت میں کھڑی ہے دنیا

روشن ہوا تھا غارِ حِرا کل کی بات ہے

آپؐ سے رشتہ غلامی کا سدا قائم رہے

بہت چھوٹا سہی لیکن مدینے کی نظر میں ہوں

رات کا پچھلا پہر ہو مصطفیٰؐ ہو اور مَیں