بہت چھوٹا سہی لیکن مدینے کی نظر میں ہوں

بہت چھوٹا سہی لیکن مدینے کی نظر میں ہوں

مجھے لگتا ہے یوں جیسے میں آغوشِ سحر میں ہوں


کسی طوفانِ بَد کا مجھ پہ حملہ ہو نہیں سکتا

بہت ہی مطمئن ہوں مَیں کہ دامانِ شجر میں ہوں


نہ بڑھتی ہے نہ گھٹتی ہے عجب ہی یہ مسافت ہے

قدم آگے نہیں جاتے بظاہر مَیں سفر میں ہوں


کسی سیلاب نے میرا کبھی رستہ نہیں روکا

غلامی کے سبب مَیں لشکرِ خیر البشرؐ میں ہوں


جھُکی رہتی ہے میرے سر پہ رحمت کی گھٹا انجؔم

مجھے لگتا ہے جیسے مَیں دعاؤں کے نگر میں ہوں

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

لوحِ دل بے حرف ہے اس پر لکھا کچھ بھی نہیں

مدینے کے دیوار وہ در جاگتے ہیں

ہاتھ باندھے ہوئے خدمت میں کھڑی ہے دنیا

روشن ہوا تھا غارِ حِرا کل کی بات ہے

آپؐ سے رشتہ غلامی کا سدا قائم رہے

رات کا پچھلا پہر ہو مصطفیٰؐ ہو اور مَیں

مدینے کی طرف میں دوڑ کر جاتا ہوں جانے کیوں

ذرّہ ذرّہ مسکرا کر آسماں بنتا گیا

پھول جیسے لبوں کی دُعا مصطفیٰؐ

انمول خزانوں کا خزینہ ہے مدینہ