ذرّہ ذرّہ مسکرا کر آسماں بنتا گیا

ذرّہ ذرّہ مسکرا کر آسماں بنتا گیا

اِک جہاں مِٹتا گیا اور اِک جہاں بنتا گیا


آپؐ کے قدموں کو چھونے سے ہوئی روشن زمیں

قریہ قریہ نُور کی اِک کہکشاں بنتا گیا


میں نے جو بھی لفظ لکھا آپؐ کی تعریف میں

وہ مرے خاموش لہجے کی زباں بنتا گیا


آپؐ کے آنے سے آیا خوبصورت انقلاب

معصیت کا دور بھُولی داستاں بنتا گیا


جیسے جیسے دھوپ کی بے رحمیاں بڑھنے لگیں

آپؐ کا سایہ سروں پر سائباں بنتا گیا


کتنی ہی آنکھوں میں خوشیوں کی چمک پیدا ہوئی

آپؐ کے آتے ہی میلے کا سماں بنتا گیا


آپؐ آئے تھے تو دنیا میں اکیلے تھے مگر

دیکھتے ہی دیکھتے اِک کارواں بنتا گیا

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

روشن ہوا تھا غارِ حِرا کل کی بات ہے

آپؐ سے رشتہ غلامی کا سدا قائم رہے

بہت چھوٹا سہی لیکن مدینے کی نظر میں ہوں

رات کا پچھلا پہر ہو مصطفیٰؐ ہو اور مَیں

مدینے کی طرف میں دوڑ کر جاتا ہوں جانے کیوں

پھول جیسے لبوں کی دُعا مصطفیٰؐ

انمول خزانوں کا خزینہ ہے مدینہ

آپؐ کے لفظوں کی خوشبو اور صدا میں قید ہوں

خدا رحم کرتا نہیں اُس بشر پر

مکے سے مدینے کا سفر یاد آیا