مکے سے مدینے کا سفر یاد آیا

مکے سے مدینے کا سفر یاد آیا

مہکے ہوئے لمحوں کا نگر یاد آیا


ٹھہرا تھا جہاں اہلِ جنوں کا لشکر

وہ عہدِ رسالتؐ کا شجر یاد آیا


سویا ہے کوئی بھوکا زمیں پر جب بھی

آقائے ؐ دو عالم کا عمر یاد آیا


دنیا میں ہوا کیسے قمر دو ٹکڑے

آدھا تھا اِدھر آدھا اُدھر یاد آیا


ملتے ہیں جسے قدسی اجازت لے کر

اقراء کا مخاطب وہ بشرؐ یاد آیا


روتا ہی رہا اُٹھ کے میں گھر میں جب بھی

راتوں کو ترا دیدۂِ تر یاد آیا

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

ذرّہ ذرّہ مسکرا کر آسماں بنتا گیا

پھول جیسے لبوں کی دُعا مصطفیٰؐ

انمول خزانوں کا خزینہ ہے مدینہ

آپؐ کے لفظوں کی خوشبو اور صدا میں قید ہوں

خدا رحم کرتا نہیں اُس بشر پر

آپؐ کے دامن سے جا لپٹوں کسی دن خواب میں

میری آنکھیں دیکھنا چاہیں وہ دریا نُور کا

کس قدر مانوس ہیں سارے پیمبر آپؐ سے

حرم سے گفتگو کرتی ہواؤں میں اُڑا دینا

گریزاں ہوں صداقت سے وہ لَب ایسے نہیں ہوتے