میری آنکھیں دیکھنا چاہیں وہ دریا نُور کا

میری آنکھیں دیکھنا چاہیں وہ دریا نُور کا

دُور تک پھیلا ہوا معصوم صحرا نُور کا


مجھ کو ہے ایسے مقدس پیڑ کی کب سے تلاش

ٹہنی ٹہنی جس کی خوشبو ، پتا پتا نُور کا


جس کو دیکھے سے غلاموں کو شہنشاہی ملے

کاش نظروں میں سما جائے وہ چہرہ نُور کا


جس کے رستے میں بچھی ہیں کہکشائیں بے شمار

اُسؐ کی ساری فوج نوری اسؐ کا خیمہ نُور کا


اُسؐ کا سارا جسم ہے مہکا ہوا مثلِ گلاب

اُسؐ کی آنکھیں نُور کی اُس کا سراپا نُور کا


کون کہتا ہے کہ ہے محدود اُسؐ کی روشنی

چاند ہے وہ اور اُس کا گھر ہے سارا نُور کا


کس قدر انجؔم ہیں اُسؐ کی پاک ساری دلہنیں

کس قدر ہے خوبصورت اُس کا سہرا نُور کا

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

انمول خزانوں کا خزینہ ہے مدینہ

آپؐ کے لفظوں کی خوشبو اور صدا میں قید ہوں

خدا رحم کرتا نہیں اُس بشر پر

مکے سے مدینے کا سفر یاد آیا

آپؐ کے دامن سے جا لپٹوں کسی دن خواب میں

کس قدر مانوس ہیں سارے پیمبر آپؐ سے

حرم سے گفتگو کرتی ہواؤں میں اُڑا دینا

گریزاں ہوں صداقت سے وہ لَب ایسے نہیں ہوتے

کسے معلوم ہے کتنی بلندی پر ہے مقام اُسؐ کا

انبیاء کی کہکشاں ہے مصطفیٰؐ صرف ایک ہے