انمول خزانوں کا خزینہ ہے مدینہ

انمول خزانوں کا خزینہ ہے مدینہ

جنت کے مکینوں کا سفینہ ہے مدینہ


بکھرے ہیں تہِ خاک یہاں چاند ستارے

کتنے ہی جواہر کا دفینہ ہے مدینہ


گو دونوں مقدس ہیں فرشتوں کی حیا سے

مکہ ہے مگر مکہ ، مدینہ ہے مدینہ


روشن ہیں اسی خاک سے قرنوں کی جبینیں

کونین کا دِل ، عرش کا زینہ ہے مدینہ


دونوں ہی جہانوں میں چمک اِس کی نرالی

دونوں ہی جہانوں کا نگینہ ہے مدینہ


رحمت کے سوا اِس کے ہے دامن میں نہ کچھ بھی

برسات سے بھرپور مہینہ ہے مدینہ


ہوتی ہے جہاں شام و سحر نُور کی بارش

دنیائے تقدس کا وہ سینہ ہے مدینہ


مہکار سمیٹی ہی نہیں جاتی کسی سے

سرکارؐ دوعالم کا پسینہ ہے مدینہ


یہ خاک مقدس ہے گلابوں کی جبیں سے

آہستہ قدم رکھنا مدینہ ہے مدینہ

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

بہت چھوٹا سہی لیکن مدینے کی نظر میں ہوں

رات کا پچھلا پہر ہو مصطفیٰؐ ہو اور مَیں

مدینے کی طرف میں دوڑ کر جاتا ہوں جانے کیوں

ذرّہ ذرّہ مسکرا کر آسماں بنتا گیا

پھول جیسے لبوں کی دُعا مصطفیٰؐ

آپؐ کے لفظوں کی خوشبو اور صدا میں قید ہوں

خدا رحم کرتا نہیں اُس بشر پر

مکے سے مدینے کا سفر یاد آیا

آپؐ کے دامن سے جا لپٹوں کسی دن خواب میں

میری آنکھیں دیکھنا چاہیں وہ دریا نُور کا