رات کا پچھلا پہر ہو مصطفیٰؐ ہو اور مَیں

رات کا پچھلا پہر ہو مصطفیٰؐ ہو اور مَیں

نُور میں ڈوبا ہوا غارِ حرا ہو اور مَیں


روشنی ہی روشنی ہو چار جانب ، چار سُو

ایک میٹھا اور لمبا رت جگا ہو اور مَیں


دوسرا کوئی نہ ہو آقائے بطحا کے سوا

آنسوؤں کا ایک جھلمل سلسلہ ہو اور مَیں


اُنؐ کے دامن کی مہک سے رات ہو مہکی ہوئی

میرا منہ اُنؐ کے کفِ پا چُومتا ہو اور مَیں


میری آنکھوں میں ندامت کی نمی ہو اور بَس

میرے ہونٹوں پر فقط صلِّ علیٰ ہو اور مَیں


اپنی پلکوں سے ہٹاؤں اُنؐ کے جوتُوں سے غبار

میرے سر پر سایۂ رحمت سجا ہو اور مَیں


میری جانب دیکھتے ہوں دو جہانوں کے امام

میرا یہ سر اُنؐ کے قدموں میں پڑا ہو اور مَیں


خواب میں جاؤں میں انجؔم اِس طرح اُنؐ کے حضور

رحمتوں کا چار جانب جمگھٹا ہو اور مَیں

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

مدینے کے دیوار وہ در جاگتے ہیں

ہاتھ باندھے ہوئے خدمت میں کھڑی ہے دنیا

روشن ہوا تھا غارِ حِرا کل کی بات ہے

آپؐ سے رشتہ غلامی کا سدا قائم رہے

بہت چھوٹا سہی لیکن مدینے کی نظر میں ہوں

مدینے کی طرف میں دوڑ کر جاتا ہوں جانے کیوں

ذرّہ ذرّہ مسکرا کر آسماں بنتا گیا

پھول جیسے لبوں کی دُعا مصطفیٰؐ

انمول خزانوں کا خزینہ ہے مدینہ

آپؐ کے لفظوں کی خوشبو اور صدا میں قید ہوں