ہاتھ باندھے ہوئے خدمت میں کھڑی ہے دنیا

ہاتھ باندھے ہوئے خدمت میں کھڑی ہے دنیا

کتنے اچھے ہیں یہی سوچ رہی ہے دنیا


تیرے جُوتوں کے جو تلووں سے لگی ہے مٹی

میں نے سوچا تو یہ سمجھا کہ یہی ہے دنیا


تُو نے تو آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا اِس کو

تیریؐ راہوں کو مگر چُوم رہی ہے دنیا


لوگ بستے تھے مگر پھر بھی تھی اُجڑی اُجڑی

تُوؐ نے جب اِس کو بسایا تو بسی ہے دنیا


تیری ؐنسبت کے سبب حاوی ہوں اِس پر ورنہ

میری قامت ، میری طاقت ، سے بڑی ہے دنیا


تیریؐ خوشبو سے مہک اٹھا ہے اِس کا دامن

تیریؐ آمد تیرے آنے سے سجی ہے دنیا


کوئی روکے بھی تو رُکتی ہے کہاں یہ انجؔم

اُنؐ کے روضے کی طرف دوڑ پڑی ہے دنیا

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

اتنی پاکیزہ کہاں مٹی کسی کے شہر میں

کاغذ پر وہ نام لکھوں تو رو پڑتا ہوں

آپؐ کا اسمِ گرامی اِس قدر اچھا لگے

لوحِ دل بے حرف ہے اس پر لکھا کچھ بھی نہیں

مدینے کے دیوار وہ در جاگتے ہیں

روشن ہوا تھا غارِ حِرا کل کی بات ہے

آپؐ سے رشتہ غلامی کا سدا قائم رہے

بہت چھوٹا سہی لیکن مدینے کی نظر میں ہوں

رات کا پچھلا پہر ہو مصطفیٰؐ ہو اور مَیں

مدینے کی طرف میں دوڑ کر جاتا ہوں جانے کیوں