لوحِ دل بے حرف ہے اس پر لکھا کچھ بھی نہیں

لوحِ دل بے حرف ہے اس پر لکھا کچھ بھی نہیں

آپؐ کے اسم گرامی کے سوا کچھ بھی نہیں


آپؐ کی رہ میں بکھر جاؤں میں شبنم کی طرح

میرے ہونٹوں پر بجز اِس کے دعا کچھ بھی نہیں


دوجہاں کی وسعتیں حائل ہیں رستے میں مگر

آپؐ چاہیں تو یہ سارا فاصلہ کچھ بھی نہیں


ہاتھ پھیلائے نہیں اس نے کسی کے سامنے

آپؐ کے خادمِ نے دنیا سے لیا کچھ بھی نہیں


کون سی شے لے کے آوں آپؐ کے دربار میں

میرے دامن میں ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں


کس طرح ہو آپؐ کے وہ مرتبہ سے آشنا

جس کو اپنے ہی تشخص کا پتہ کچھ بھی نہیں

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

جگہ جگہ تیریؐ محفل سجی ہوئی ہے ابھی

نبیؐ کے شہر میں بہرِ خدا آہستہ بولو

اتنی پاکیزہ کہاں مٹی کسی کے شہر میں

کاغذ پر وہ نام لکھوں تو رو پڑتا ہوں

آپؐ کا اسمِ گرامی اِس قدر اچھا لگے

مدینے کے دیوار وہ در جاگتے ہیں

ہاتھ باندھے ہوئے خدمت میں کھڑی ہے دنیا

روشن ہوا تھا غارِ حِرا کل کی بات ہے

آپؐ سے رشتہ غلامی کا سدا قائم رہے

بہت چھوٹا سہی لیکن مدینے کی نظر میں ہوں