روشن ہوا تھا غارِ حِرا کل کی بات ہے

روشن ہوا تھا غارِ حِرا کل کی بات ہے

سارا جہاں چمکنے لگا، کل کی بات ہے


چلتے تھے سر اُٹھا کے زمیں پر غریب لوگ

چھوٹا بڑا کوئی بھی نہ تھا، کل کی بات ہے


گردِ سفر سے جس کی کھلے روشنی کے پھول

وہ قافلہ زمیں پہ رُکا، کل کی بات ہے


خوشبو برس رہی تھی کسی کے وجود کی

مہکی ہوئی تھی ساری فضا، کل کی بات ہے


اُڑتے تھے نَور بن کے چمکتے ہوئے حروف

ہونٹوں کو چُومتی تھی دُعا، کل کی بات ہے


گُم صُم کھڑے ہیں سوچ میں سب آسماں کے لوگ

اِک واقعہ عظیم ہوا، کل کی بات ہے


انجؔم نہ تھا کسی کو کسی سے کوئی گِلہ

بھوکا زمیں پہ کوئی نہ تھا، کل کی بات ہے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

کاغذ پر وہ نام لکھوں تو رو پڑتا ہوں

آپؐ کا اسمِ گرامی اِس قدر اچھا لگے

لوحِ دل بے حرف ہے اس پر لکھا کچھ بھی نہیں

مدینے کے دیوار وہ در جاگتے ہیں

ہاتھ باندھے ہوئے خدمت میں کھڑی ہے دنیا

آپؐ سے رشتہ غلامی کا سدا قائم رہے

بہت چھوٹا سہی لیکن مدینے کی نظر میں ہوں

رات کا پچھلا پہر ہو مصطفیٰؐ ہو اور مَیں

مدینے کی طرف میں دوڑ کر جاتا ہوں جانے کیوں

ذرّہ ذرّہ مسکرا کر آسماں بنتا گیا