حرم سے گفتگو کرتی ہواؤں میں اُڑا دینا

حرم سے گفتگو کرتی ہواؤں میں اُڑا دینا

مجھے اِک بار اپنا گنبد خضرا دکھا دینا


نجانے کتنی مدت سے ہیں دونوں خالی خالی سی

مری آنکھوں میں اپنے شہر کے منظر سجا دینا


کبھی دُوری نہ ہو محسوس مجھ کو اپنے آقاؐ سے

مرے سینے میں اپنے نام کی خوشبو چھپا دینا


کہیں اُس کے علاوہ چین آیا نہ آئے گا

مجھے بچوں کی صورت اپنے قدموں میں سُلا دینا


بھٹک جاؤں نہ گمنامی کے اس بے نام جنگل میں

مرے اوپر فصیلِ نُور کا سایہ گرا دینا


کہاں مَیں اور کہاں اصحاب کا رُتبہ میرے آقاؐ

غلام اپنے غلاموں کے غلاموں کا بنا دینا

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

خدا رحم کرتا نہیں اُس بشر پر

مکے سے مدینے کا سفر یاد آیا

آپؐ کے دامن سے جا لپٹوں کسی دن خواب میں

میری آنکھیں دیکھنا چاہیں وہ دریا نُور کا

کس قدر مانوس ہیں سارے پیمبر آپؐ سے

گریزاں ہوں صداقت سے وہ لَب ایسے نہیں ہوتے

کسے معلوم ہے کتنی بلندی پر ہے مقام اُسؐ کا

انبیاء کی کہکشاں ہے مصطفیٰؐ صرف ایک ہے

ہر طرف نُور پھیلا ہوا دیکھ لوں

ترے نُور کا دائرہ چاہتا ہوں