سخاوت ہی سخاوت ہے محبت ہی محبت ہے

سخاوت ہی سخاوت ہے محبت ہی محبت ہے

اُسے پھیلے ہوئے دامن کو بھر دینے کی عادت ہے


وہ شہرِ علم ہے اُس کا احاطہ ہو نہیں سکتا

درِ محشر تلک پھیلی ہوئی اُس کی رسالت ہے


دَر ِ پُر نور پر جھکتی ہوئی صدیو! گواہ رہنا

مجھے اُس کی تمنا ہے مجھے اُس کی ضرورت ہے


اَدب کے ساتھ اُس کو یاد کرنا بھی ہے اِک نیکی

اَدب کے ساتھ اس کا نام لینا بھی عبادت ہے


کبھی اُس کی روانی میں کمی آتی نہیں انجؔم

وہ ہر موسم میں بہتا ہے کہ وہ دریائے رحمت ہے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

چہرے پہ خواہشوں کا لکھا بولنے لگے

ٹھنڈی ٹھنڈی میٹھی میٹھی جسم و جاں کی روشنی

قصر دل کے مکیں یا نبی آپؐ ہیں

رسولِ اوّل و آخر کے لب اچھے زباں اچھی

وہ گنبد ہے کہ جس میں ہر صدا گم ہو کے رہ جائے

گنبدِ خضرا کی چاہت کا نشہ آنکھوں میں ہے

میری آنکھوں میں عقیدت کی خوشی زندہ رہے

زمین و آسماں کا حُسن آپس میں ملا دینا

اُس کی منزل منفرد اُس کا سفر کچھ اور ہے

سب سے بہتر ہے نام و نسب آپؐ کا