سخاوت ہی سخاوت ہے محبت ہی محبت ہے
اُسے پھیلے ہوئے دامن کو بھر دینے کی عادت ہے
وہ شہرِ علم ہے اُس کا احاطہ ہو نہیں سکتا
درِ محشر تلک پھیلی ہوئی اُس کی رسالت ہے
دَر ِ پُر نور پر جھکتی ہوئی صدیو! گواہ رہنا
مجھے اُس کی تمنا ہے مجھے اُس کی ضرورت ہے
اَدب کے ساتھ اُس کو یاد کرنا بھی ہے اِک نیکی
اَدب کے ساتھ اس کا نام لینا بھی عبادت ہے
کبھی اُس کی روانی میں کمی آتی نہیں انجؔم
وہ ہر موسم میں بہتا ہے کہ وہ دریائے رحمت ہے
شاعر کا نام :- انجم نیازی
کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو