وحدت کا عقیدہ بھی اسی در کی عطا ہے

وحدت کا عقیدہ بھی اسی در کی عطا ہے

قرآں کا صحیفہ بھی اسی در کی عطا ہے


ہر لمحہ مدینے کی تھی اس دل میں تمنّا

منظوری کا لمحہ بھی اسی در کی عطا ہے


ایمان کی بنیاد ہے حبِ شہِؐ والا

حبِ شہِؐ والا بھی اسی در کی عطا ہے


ہر سمت سے آتی ہیں اذانوں کی صدائیں

دعوت کا طریقہ بھی اسی در کی عطا ہے


ہے خلد بچھی منبر و مقصورہ کے مابین

جنت کا یہ تحفہ بھی اسی در کی عطا ہے


ہیں نعمتیں دنیا کی بھی اس در کی بدولت

بخشش کا وسیلہ بھی اسی در کی عطا ہے


توقیر فزا داد ہے احباب کی مجھ کو

حسنِ لب و لہجہ بھی اسی در کی عطا ہے


ملتی ہے جزا لاکھ نمازوں کی جہاں پر

وہ کعبہ وہ قبلہ بھی اسی در کی عطا ہے


گویائی عنایت ہوئی اس سے مجھے طاہرؔ

’’مدحت کا قرینہ بھی اسی در کی عطا ہے‘‘

کتاب کا نام :- طرحِ نعت

دیگر کلام

ہے ربط رہتا سدا حسن کے نزول سے ہے

بتایا آپؐ کے ہر مقتدی رسول نے ہے

نہ سُر کی مجھ کو خبر ہے نہ جانتا ہوں میں لَے

بہجت کا قرینہ بھی اسی در کی عطا ہے

جو پایا قرینہ بھی اسی در کی عطا ہے

توفیق ثنائوں کی اسی در کی عطا ہے

آفاق میں جو سب سے بھلی در کی عطا ہے

کیا میرے لیے جلوۂ سرورؐ کی عطا ہے

سرکارِؐ دو عالم کی ہوئی کیسی عطا ہے

دیں اذنِ حضوری مرے اشکوں کی صدا ہے