نبضیں لرز رہی ہیں ضمیر حیات کی

نبضیں لرز رہی ہیں ضمیر حیات کی

سانسیں اکھڑ رہی ہیں دل کائنات کی


عباسؑ کے غضب کا اثر ہے کہ آج تک

ساحل سے دور دور ہیں موجیں فرات کی

شاعر کا نام :- محسن نقوی

کتاب کا نام :- حق ایلیا

دیگر کلام

لڑکھڑائی جو زباں نطقِ جلی یاد آیا

بدلی مصیبتوں کی جو چھائی تھی چھٹ گئی

کس نے کہا کہ مفتی و ملا کے شر میں آ؟

قرطاسِ شفاعت کے سوا اور بھی کچھ مانگ

قرطاسِ شفاعت کے سوا اور بھی کچھ مانگ

کیوں کہہ رہے ہو رین بسیرا ہے زندگی

پڑا جو رعب تو سب قیل و قال بھول گئے

چھلنی تھا ظلم و جور سے جادہ حسینؑ کا

نہ پوچھ کیسے کوئی شاہِ مشرقین بنا

ہیبتِ” نادِ علیؑ“ میں یہ قرینہ دیکھا