حبشی ہوں نہ رومی ہوں نہ قرنی ہوں میں

حبشی ہوں نہ رومی ہوں نہ قرنی ہوں میں

صدقہ ہے انہی سب کا کہ ہندی ہوں میں


کچھ اور سلیقہ نہیں مجھ کو واللہ

ہاں نعتیں کہے جاتا ہوں نظمی ہوں میں

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

لے جاتے سرِ عرش ہیں تخئیل کے پر

د ل کو عشقِ شہِ والا کی طلب ہو جائے

سوہنے دے دروازے اتوں ہر درد دی ملے دوائی

تری نبوت عطائے ربی ہدایتِ کُل بہارِ عالم

کچھ چڑھائی کے اوپر

یہ میکدہ ہے نگاہوں کا جام چلتا ہے

کب بشر واقفِ اسرارِ جلی بنتا ہے

ناں میں دنیا تے تاج نہ تخت منگاں نہ میں دولت نہ باغ نعیم منگناں

حسین نوں چمیاں ایں

بخشا سکوں ہے گنج شکر تیرے جام نے