اس کی لوری کے لیے لفظ کہاں سے لاؤں
سارے عالم کے مقدّر کو جگایا جس نے
جس کے جھُولے پہ ملائک نے ترانے چھیڑے
قصرِ کسریٰ کی منڈیروں کو ہلایا جس نے
جو کھلونوں سے نہیں شمس و قمر سے کھیلے
جن پہ سایہ پرِ جبریل کیا کرتے تھے
گود میں لے کے گزرتی تھی حلیمہ جس سمت
خار اس راہ کو خوشبو سی دیا کرتے تھے
جن کو الہام و نبوّت کا امیں ہونا تھا
جن سے قائم ہوئے بیدار نگاہی کے اُصول
دوشِ براق پہ پہنچے جو سر عرشِ بریں
وہ خلاؤں کے پیمبرؐ وہ فضاؤں کے رسُول
شاعر کا نام :- ساغر صدیقی
کتاب کا نام :- کلیاتِ ساغر