دیکھو مرا نصیب بھی کس اوج پر گیا

دیکھو مرا نصیب بھی کس اوج پر گیا

یہ کاروبارِ نعت بڑا کام کر گیا


نکلا ہی تھا زبان سے سرکار المدد

غم پاس آرہا تھا نہ جانے کدھر گیا


پوچھا کسی نے صدقۂ حسنِ نبی ہے کیا

میرا خیال جانبِ شمس و قمر گیا


اس بار مل ہی جائیگا اذنِ سفر ضرور

’’قاصد گیا، نسیم گئی، نامہ بر گیا‘‘


ناموسِ مصطفےٰ پہ اٹھاتا ہے انگلیاں

ایمان تیرے ہاتھ سے اے بےخبر ! گیا


سرکار کے جمال پہ جوں ہی نظر پڑی

پھر آسماں کے چاند کا چہرہ اتر گیا


صورت نہ تھی دکھانے کےقابل مگر، شفیقؔ

سرکار کے کرم سے درِ پاک پر گیا

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

صحرا میں برگ و شجر، سبزہ اُگانے والے

صاحبّ التّاج وہ شاہ معراج وہ

جب حُسن تھا اُن کا جلوہ نما انوار کا عَالم کیا ہوگا

شورِ مہِ نو سن کر تجھ تک میں دَواں آیا

!لب پہ نعت و سلام ہے آقا

زینبؑ، نبیؐ کا ناز، اِمامت کی آبرُو

اپنا غم یاشہِ انبیا دیجئے

مرتبہ یہ ہے خیر الانام آپؐ کا

جس کا دل منبعِ حُبِ شہِ والا ہوگا

سُنے کون قصّہء دردِ دل ، مِرا غم گُسار چلا گیا