مَیں نعرہ مستانہ، مَیں شوخئِ رِندانہ

مَیں نعرہ مستانہ، مَیں شوخئِ رِندانہ

میں تَشنہ کہاں جاؤں ، پی کر بھی کہاں جانا


مَیں طائرِ لاہوتی ، مَیں جوہر ِ ملکوتی !

ناسوتی نے کب مجھکو اس حال میں پہچانا!


مَیں سوزِ محبّت ہُوں مَیں ایک قیامت ہُوں

مَیں اشک ِ ندامت ہُوں ، مَیں گو ہرِ یکدانہ


کِس یاد کا صحرا ہُوں ، کِس چشم کا دریا ہوں

خود طُور کا جلوہ ہُو ں ہے شکل کلیمانہ !


مَیں شمع فروزاں ہُوں ، میں آتشِ لرزاں ہُو ں

مَیں سوزشِ ہجراں ہُوں مَیں منزل ِ پر وانہ


مَیں حُسنِ مجسّم ہوں ‘ مَیں گیسوئے بر ہم ہُوں

مَیں پھُول ہُوں شبنم ہوں ، مَیں جلوہ جانانہ


مَیں واصفِ بِسمل ہُوں میں رونقِ محفل ہُوں

اِک ٹوٹا ہُوا دل ہُوں میں شہر میں ویرانہ

شاعر کا نام :- واصف علی واصف

کتاب کا نام :- شبِ چراغ

دیگر کلام

الحذر از حُبِّ دنیا الحذر

کاروانِ زندگی پیہم رواں ہے صبح و شام

شب ِ انتظار کی بات ہُوں غمِ بر قرار کی بات ہُوّں

بنا چار تنکوں کا آشیاں کہ تڑپ تڑپ اٹھیں بجلیاں

مَیں جھُوم کے اُٹّھا ہوں

سرِ دُنیا رہے گا تو سدا کیا