یہ بلبل ،یہ تتلی، یہ خوشبو بنا کر

یہ بلبل ،یہ تتلی، یہ خوشبو بنا کر

ارم کی طرح دی زمیں یہ سجا کر


نشاں کچھ بتائے ہمیں یوں اجل کے

وہ نہروں کو دریا، سمندر میں لا کر


وہ اول، وہ آخر ،وہ ظاہر، وہ باطن

ازاں میں عیاں کر دیا یہ سنا کر


اگر تو ہے ظاہر تو میرے خدایا

دکھا اپنا چہرہ تو پردے ہٹا کر


بشر کی زمیں پر رسائی کہاں تھی

اتارا زمیں پر ستارا بنا کر


قیامت سے پہلے بپا حشر کر کے

ڈرا دے گا مردے زمیں سے اٹھا کر


کرم کر رہا ہے کھلا کر تُو اب تو

کبھی ڈال دے گا تو آتش جلا کر


زمیں آسماں پر ہیں جتنے ستارے

انہیں دیکھ کر دل کہے تو ثنا کر


یہ کوہ و دمن اور یہ بہتے جھرنے

عطا کر دیے ہیں ہمیں یہ سجا کر


دھنک، آبشاریں ،پرندوں کے جُھرمٹ

انہیں دیکھنے کی نگہ بھی عطا کر


جہاں تیرگی کا تسلط ہے قائم

وہاں مصطفیٰ کی خدایا ضیا کر

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دل میں اترتے حرف سے مجھ کو ملا پتا ترا

کرم کے بادل برس رہے ہیں

میں سوجاؤں یا مصطفٰے کہتے کہتے

ثانی ترا کونین کے کشور میں نہیں ہے

حقیقت میں وہ لطفِ زندگی پایا نہیں کرتے

غم ہو گئے بے شمار آقا

آپ آقاؤں کے آقا آپ ہیں شاہِ اَنام

روک لیتی ہے آپ کی نسبت

حاجیو! آؤ شہنشاہ کا رَوضہ دیکھو

مومن وہ ہے جو اُن کی عزّت پہ مَرے دِل سے