خسروی اچھی لگی نہ سروری اچھی لگی

خسروی اچھی لگی نہ سروری اچھی لگی

ہم فقیروں کو مدینے کی گلی اچھی لگی


دور تھے تو زندگی بے رنگ تھی بے کیف تھی

ان کے کوچے میں گئے تو زندگی اچھی لگی


میں نہ جاوں گا کہیں بھی در نبی کا چھوڑ کر

مجھ کو کوئے مصطفیﷺ کی چاکری اچھی لگی


یوں تو کہنے کو گزاری زندگی میں نے مگر

جو در آقا پہ گزاری وہ گھڑی اچھی لگی


والہانہ ہو گئے جو تیرے قدموں پر نثار

حق تعالی کو ادا ان کی بڑی اچھی لگی


ناز کر تو اے حلیمہ سرور کونینﷺ کو

گر لگی اچھی تو تیری جھونپڑی اچھی لگی


ساقی کوثر کا جس کو مل گیا جام ولا

کب اسے پھر مئے کدہ اور مئے کشی اچھی لگی


بے خودی میں کھینچ کے آجاتے ہیں آقاﷺ کے غلام

محفل نعت نبی جس جا سجی اچھی لگی


رکھ دیئے سرکارﷺ کے قدموں پہ سلطانوں نے سر

سرور کون و مکاں کی سادگی اچھی لگی


دور رہ کر آستان سرور کونین سے

زندگی اچھی لگی نہ بندگی اچھی لگی


تھا مری دیوانگی میں بھی شعور احترام

میرے آقا کو مری دیوانگی اچھی لگی


مہر و ماہ کی روشنی مانا کہ ہے اچھی مگر

سبز گنبد کی مجھے تو روشنی اچھی لگی


آج محفل میں نیازی نعت جو میں نے پڑھی

عاشقان مصطفیﷺ کو وہ بڑی اچھی لگی

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

پائی نہ تیرے لطف کی حد سیّد الوریٰ

حبیبِ ربِ کریم آقاؐ

آج طیبہ کا ہے سفر آقا

سر سوئے روضہ جھکا پھر تجھ کو کیا

ہم شہر مدینہ کی ہوا چھوڑ چلے ہیں

مجھ پر شہِ عرب کا ہر دم کرم رہے

یا رب ترے محبوب کا جلوا نظر آئے

خُدایا نئی زندگی چاہتا ہوں

خاک سورج سے اندھیروں کا ازالہ ہوگا

میرے اچھّے رسُول