جب تصور میں کبھی گنبد ِ خضراء دیکھوں

جب تصور میں کبھی گنبد ِ خضراء دیکھوں

دل دریچے میں سنہری سا اجالا دیکھوں


میں نے اک خواب میں خوشبو کو مجسم دیکھا

دل میں حسرت ہے کہ ہر شب یہی سپنا دیکھوں


آپ ہی باعث ِ تخلیق ِ دو عالم ہیں حضور

آپ کے سر پہ میں لولاک کا سہرا دیکھوں


مرے سرکار کریمی کی تمنا ہے یہی

موت جب آئے تو میں آپ کا چہر دیکھوں

شاعر کا نام :- آفتاب کریمی

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا

آیا نہ ہوگا اس طرح، حسن و شباب ریت پر

ہم کو دعویٰ ہے کہ ہم بھی ہیں نکو کاروں میں

یا رب ثنا میں کعبؓ کی دلکش ادا مل

حقیقت میں وہ لطفِ زندگی پایا نہیں کرتے

کربلا والوں کا غم یاد آیا

تو امیرِ حَرمُ مَیں فقیرِ عَجم

تاریخ ہے نگاہ نظارہ حسین ہے

بَکارِ خَویْش حَیرانَم اَغِثْنِیْ یَا رَسُوْلَ اللہ

صحرا میں برگ و شجر، سبزہ اُگانے والے