خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اُترے

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اُترے

وہ فصلِ گل ‘ جسے اندیشئہ زوال نہ ہو


یہاں جو پھول کِھلے ‘ وہ کِھلا رہے صدیوں

یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو


یہاں جو سبزہ اُگے ‘ وہ ہمیشہ سبز رہے

اور ایسا سبز ‘ کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو


گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں

کہ پتھروں سے بھی ‘ روئیدگی محال نہ ہو


خدا کرے --- کہ نہ خم ہو سرِ وقارِ وطن

اور اس کے حُسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو


ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اَوج کمال

کوئی مَلُول نہ ہو ‘ کوئی خستہ حال نہ ہو


خدا کرے --- کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے

حیات جرم نہ ہو ‘ زندگی وبال نہ ہو


خدا کرے --- کہ مِری ارض پاک پر اُترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

اللہ اللہ ترا دربار رسولِ عَرَبی

خزینے رحمتوں کے پا رہا ہوں

میں شہنشاہِ ؐ دو عالم کے پڑا ہوں

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک

کرم آقائے ہر عالم کا ہم پر کیوں نہیں ہوگا

درِ اقدس پہ جا کر ہم

صبح میلادالنبی ہے کیا سہانا نور ہے

تمہارے ذَرِّے کے پر تو ستارہائے فلک

پائی نہ تیرے لطف کی حد سیّد الوریٰ

ساری خوشیوں سے بڑھ کر خوشی ہے