خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل ‘ جسے اندیشئہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کِھلے ‘ وہ کِھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے ‘ وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز ‘ کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں سے بھی ‘ روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے --- کہ نہ خم ہو سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حُسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اَوج کمال
کوئی مَلُول نہ ہو ‘ کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے --- کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو ‘ زندگی وبال نہ ہو
خدا کرے --- کہ مِری ارض پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی
کتاب کا نام :- انوارِ جمال