کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے ‘یہ شیدا تیرا

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے ‘یہ شیدا تیرا

اِس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا


تہ بہ تہ تیرگیاں ‘ ذہن پہ جب ٹوٹتی ہیں

نور ہو جاتا ہے کچھ اور ہویدا تیرا


کچھ نہیں سُوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے

چھلک اُٹھتا ہے مری رُوح میں ‘ مِینا تیرا


پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم

مجھ کو جُھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا


دستگیری میری تنہائی کی ‘تُو نے ہی تو کی

میں تو مر جاتا ‘ اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا


لوگ کہتے ہیں کہ سایہ ترے پیکر کا نہ تھا

میں تو کہتا ہوں ‘جہاں بھر پہ ہے سایا تیرا


تُو بشر بھی ہے مگر فخرِ بشر بھی تُو ہے

مجھ کو تو یاد ہے بس اِتنا سراپا تیرا


میں تجھے عالمِ اَشیاَ میں بھی پا لیتا ہوں

لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالم بالا تیرا


میری آنکھوں سے جو ڈھونڈیں ‘ تجھے ہر سُو دیکھیں

صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارہ تیرا


وہ اندھیروں سے بھی دَرَّانہ گزر جاتے ہیں

جن کے ماتھے میں چمکتا ہے ستارا تیرا


ندِّیاں بن کے پہاڑوں میں تو سب گھومتے ہیں

ریگزاروں میں بھی بہتا رہا دریا تیرا


شرق اور غرب میں بکھرے ہوئےگلزاروں کو

نکَہَتیں بانٹتا ہے آج بھی صحرا تیرا


اب بھی ظلمات فروشوں کو گِلہ ہے تجھ سے

رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا


تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ‘ ہزاروں کا سہی

اَب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا


ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ

راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اَقصیٰ تیرا

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

دلدار بڑے آئے محبوب بڑے دیکھے

جوارِ گُنبدِ اَخضر میں

آئے ہیں جب وہ منْبر و محراب سامنے

صلوٰۃْ سلامُ عَلَی المُصطَفےٰ

مقصودِ زندگی ہے اِطاعت رسوؐل کی

اے چارہ گرِ شوق کوئی ایسی دوا دے

خوشا ان کی محبت ہے بسی

نظر اِک چمن سے دو چار ہے نہ چمن چمن بھی نثار ہے

سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی

ہم کو دعویٰ ہے کہ ہم بھی ہیں نکو کاروں میں