میں نے مانا کہ وہ میرا ہے تو سب کا بھی وہی
مجھ کو یہ ناز ‘ وہ سب کا ہے تو میرا بھی وہی
سر اُٹھاتا ہوں تو اَفلاک کو مَس کرتا ہے
کہ جو محبوبِ خدا ہے ‘ مرا اپنا بھی وہی
مِثل اُس کا ‘ کوئی آیا ہے ‘ نہ اب آئے گا
میرا ماضی بھی وہی ہے ‘ مرا فردا بھی وہی
وہ مری عقل میں ہے ‘ وہ میرے وِجدان میں ہے
میری دنیا بھی وہی ہے ‘ مری عُقبیٰ بھی وہی
اُس کے اَحکام بھی کلیوں سی چٹک رکھتے ہیں
میرا آقا بھی وہی ہے ‘ مرا پیارا بھی وہی
وہ جو برسا ‘ مری تشکیک کے صحراؤں پر
میرے وہموں کی شبِ تار میں چمکا بھی وہی
کتنی صدیوں سے ہے وہ گنبد خضرا میں مکیں
اور ہر دور میں ‘ ہر سمت ‘ ہویدا بھی وہی
وہ بَشر ہے ‘ کہ یہی اُس کا ہے ارشاد ‘ مگر
اِس جہانِ بَشریّت میں ہے یکتا بھی وہی
گرچہ پرکارِ مَشِیَّت کا وہی دائرہ ہے
لیکن اِس دائرے کا مرکزی نقطہ بھی وہی
جس کے انصاف نے پتھر کو بھی بخشی ہے زباں
بے نواؤں کی نواؤں کو سنے گا بھی وہی
شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی
کتاب کا نام :- انوارِ جمال