موجود بہر سمت ہے اک ذاتِ الٰہی

موجود بہر سمت ہے اک ذاتِ الٰہی

دیتی ہیں گواہی یہی آیاتِ الٰہی


اجرامِ فلک ہوں کہ نباتات و جمادات

ہر چیز سمجھتی ہے اشاراتِ الٰہی


جتنے بھی کرشمے نظر آتے ہیں نمو کے

ہر آن کیے دیتے ہیں اثباتِ الٰہی


انساں کے حواس اُس کے ہی ارشاد سے قائم

گھیرے ہیں خلائق کو عنایاتِ الٰہی


آفاق در آفاق ہیں انوار اُسی کے

امکان در امکان نشاناتِ الٰہی


پابند عناصر ہیں اُسی ذات کے تائبؔ

فطرت میں بھی جاری ہیں ہدایات الٰہی

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

زمانے پہ چھائی ہے رحمت خدا کی

ربِ کعبہ! کھول دے سینہ مرا

یا رب! ملی مجھے یہ نوا تیرے فضل سے

دیں سکون تیرے نام یا عزیزُ یا سلام

اللہ تعالیٰ ہے جہانوں کا اجالا

خدا کے نامِ نامی سے سخن ایجاد کرتا ہوں

کھل جائے مجھ پہ بابِ عنایات اے خدا

لائقِ حمد حقیقت میں ہے خلّاقِ جہاں

تسبیح شب و روز رہے نامِ خدا کی

نامِ حق سے جو پرچم کھلا حمد کا