حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملت

حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی


ہزاروں لالہ و گُل ہیں ریاضِ ہستی میں

وفا کی جس میں ہو بو، وہ کلی نہیں ملتی


مگر میں نذر کو اِک آبگینہ لایا ہوں

جو شے ہے اِس میں وہ جنت میں بھی نہیں ملتی


جھلکتی ہے تیری اُمت کی آبرو اِس میں

طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اِس میں

شاعر کا نام :- علامہ اقبال

حضور نے کُفر کے اندھیروں کو

آغوشِ تصوّر میں مدینے کی زمیں ہے

دیں سکون تیرے نام یا عزیزُ یا سلام

بگڑی ہوئی امت کی تقدیر بناتے ہیں

ہو کرم سرکارﷺ اب تو ہو گۓ غم بے شمار

تیری حمد میں کیا کروں اے خدا

صد شکر کہ یوں وردِ زباں حمدِ خدا ہے

دل و نظر میں بہار آئی سکوں

دل تڑپنے لگا اشک بہنے لگے

چاہت مرے سینے میں سمائی ترےؐ در کی