جس دَور پہ نازاں تھی دنیا ہم اَب وہ زمانہ بھُول گئے
دُنیا کی کہانی یاد رہی اور اپنا فسانہ بھُول گئے
وہ ذکرِ حسِیں رحمت کا امیں، کہتے ہیں جسے قرآنِ مُبیں
دنیا کے نئے نغمے سِیکھے ، عقبے کا ترانہ بھول گئے
اغیار کا جادُو چل بھی چکا، ہم ایک تماشا بن بھی چکے
اپنا تو مِٹانا یاد رہا ، باطل کو مٹانا بھول گئے
انجامِ غلامی کیا کہیئے، بربادی سی بربادی ہے
جو درس شہِ بطحاؐ نے دیا ، دنیا کو پڑھانا بھول گئے
عبرت کا مُرقع یہ پستِی، ہے قابلِ حیرت یہ مستِی
دنیا کو جگا نا یاد رہا ، خود ہوش میں آنا بھُول گئے
تکبیر تو اَب بھی ہوتی ہے مسجد کی فضا میں اے انوؔر
جس ضرب سے دِل ہِل جاتے تھے وہ ضرب لگا نا بھُول گئے
شاعر کا نام :- انور صابری