ہم میں تشریف لائے وہ شاہِ اُمم
آگئے آج ہم میں وہ شاہِ اُمم
دُور سب کر دیئے جس نے رنج و الم ، وہ رسولِ خدا وہ شفیعِ اُمم
مجھ سے عاصی پہ ہے جس کا اتنا کرم ، وہ رسولِ خدا وہ شفیعِ اُمم
کس نے خون کے پیاسوں کی جاں بخش دی ، اپنے دشمن کو گھر میں اماں بخش دی
کاٹ دی کس نے زنجیرِ ظلم و ستم ، وہ رسولِ خدا وہ شفیعِ اُمم
خلق کس کا پسند آیا اغیار کو ، پھول کس نے بنایا ہر اِک خار کو
بت کدوں سے نکالے ہیں کس نے صنم ، وہ رسولِ خدا وہ شفیعِ اُمم
کس نے سائل کو دستِ مخیّر کیا ، کس نے ظلمت کدوں کو منوّر کیا
کس کا محشر میں سایہ ہے ابرِ کرم ، وہ رسولِ خدا وہ شفیعِ اُمم
کس نے تاریکیوں کو اُجالا دیا ، کس نے گرتے ہوؤں کو سنبھالا دیا
کس کے پہنچے ہیں عرشِ بریں پر قدم ، وہ رسولِ خدا وہ شفیعِ اُمم
کس کے در پر گدا جا کے سلطاں بنے ، بت بناتے تھے جو ، اہلِ ایماں بنے
کس کے آگے دو عالم کی گردن ہے خم ، وہ رسولِ خدا وہ شفیعِ اُمم
اپنی جاں پر مصائب اٹھاتے رہے اُمتی کو غضب سے بچاتے رہے
ایسی لطف و عطا ایسا جود و کرم ، وہ رسولِ خدا وہ شفیعِ اُمم
سرنگوں کو کیا اس قدر سر بلند ، ڈالتے ہیں وہ اب آسماں پر کمند
کس کے صدقے میں ہیں اُمتی محترم ، وہ رسولِ خدا وہ شفیعِ اُمم
کس نے تہذیبِ عریاں کو پہنائی ہے عزت و احترامِ جہاں کی قبا
جہل کو عِلم کا کس نے بخشا عَلم ، وہ رسولِ خدا وہ شفیعِ اُمم
خون آشام تلوار کے وہ دھنی ، دولتِ عشق سے ہوگئے سب غنی
قلب کو سوز بخشا تو آنکھوں کو نم ، وہ رسولِ خدا وہ شفیعِ اُمم
اُن کی رحمت کی یہ انتہا ہوگئی ، ایک مجرم تھا جو اور گنہ گار بھی
اس ادیبِؔ سخن ور کا رکھا بھرم ، وہ رسولِ خدا وہ شفیعِ اُمم
شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری
کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب