امرت امرت گیت لئے جب برکھا موتی رولے

امرت امرت گیت لئے جب برکھا موتی رولے

ندیا کے سنگیت سُروں میں حمد خدا کی بولے


جھیل کنارے نیلوفر کے پھولوں کا کیا کہنا

ٹھنڈی ٹھار پھواروں میں ہے فطرت کا یہ گہنا


کوئل کُو کُو شور مچاتی باغ میں جس دم آئے

ڈال کا اِک اِک پتا جھومے، ربّ کی حمد سُنائے


پُروائی کی تھاپ ہو یا ہو ساون کی بوچھاریں

کومل کومل گیت اُسی کے اُسی کی ہیں مہکاریں


من کے نِرمل سُروں میں فیضیؔ قدرت اُس کی بولے

جیون کے سب راز وہ کھولے اپنا بھید نہ کھولے

شاعر کا نام :- اسلم فیضی

کتاب کا نام :- سحابِ رحمت

اس طرف بھی شاہِ والا

کرم تیرے دا نہ کوئی ٹھکانہ یا رسول اللہؐ

آج کا دن شہِ دل گیر کا دن ہے لوگو

کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی

آج طیبہ کا ہے سفر آقا

پھر ہوا سازِ مدح زمزمہ سنج

ذکر نبی دا کردیاں رہنا چنگا لگدا اے

دل و نظر میں بہار آئی سکوں

تخلیق ہوا ہی نہیں پیکر کوئی تم سا

اپنا غم یاشہِ انبیا دیجئے