اے خدا شکر کہ اُن پر ہوئیں قرباں آنکھیں

اے خدا شکر کہ اُن پر ہوئیں قرباں آنکھیں

اُن کی دہلیز پہ رکھ آیا ہوں گِریاں آنکھیں


گنبد ِ سبز کے جلووں نے کیا ہے سیراب

کتنی شاداب ہوئی جاتی ہیں ویراں آنکھیں


ہر گھڑی ان میں مدینے کے اُجالے اتریں

اے خدا کر دے مرے دل کی فروزاں آنکھیں


جب نظر آئیں گے محشر میں شفیعِ محشرؐ

مسکرا اٹھیں گی میری بھی ہراساں آنکھیں


اُنؐ کے قدموں سے ملی دونوں جہاں کی تسکیں

جگمگا اُٹھی ہیں اب میری بھی حیراں آنکھیں


بس گئی جب سے بصارت میں سنہری جالی

آگئیں وجد میں فیضیؔ مری بے جاں آنکھیں

شاعر کا نام :- اسلم فیضی

کتاب کا نام :- سحابِ رحمت

نہیں ہے منگتا کوئی بھی ایسا کہ جس

عام ہیں آج بھی ان کے جلوے ، ہر کوئی دیکھ سکتا نہیں ہیں

پسند شوق ہے آب و ہوا مدینے کی

صد شکر کہ یوں وردِ زباں حمدِ خدا ہے

دو عالم کا امداد گار آ گیا ہے

مکاں عرش اُن کا فلک فرش اُن کا

آج طیبہ کا ہے سفر آقا

تاجدارِ حرم اے شہنشاہِ دِیں

اُن کا خیال دل میں ہے ہر دم بسا ہوا

فجر دے رنگ ثنا تیری کرن یا اللہ