ازمکاں تا لامکاں پروردگار

ازمکاں تا لامکاں پروردگار

رحم تیرا بیکراں پروردگار


ہَے صفات و ذات میں تُو لا شریک

مثل تیری ہَے کہاں پروردگار


ہے ترنم ریز تیری حمد میں

وسعتِ کون و مکاں پروردگار


تیرے ہی اذکار سے ہے چار سُو

کیف و مستی کا سماں پروردگار


عالمِ بے چارگی میں چارہ گر

تو ہی تو ہے مہرباں پروردگار


تیری قدرت ہی تری پہچان ہے

تو عیاں ہو یا نہاں پروردگار


معترف کب سے ہیں تیری ذات کے

یہ زمین و آسماں پروردگار


تو نے بخشا ہے ہمیں اپنا حبیبؐ

تجھ پہ قرباں اپنی جاں ، پروردگار

شاعر کا نام :- اسلم فیضی

کتاب کا نام :- سحابِ رحمت

کیا ہے ہجر کے احساس نے اداس مجھے

یوں با ادب کھڑا ہوں میں روضے

جس سے دونوں جہاں جگمگانے لگے

مجھے رنگ دے

ہم سوئے حشر چلیں گے شہؐ ابرار کے ساتھ

باعثِ سکونِ دل کا، محمدﷺ کا نام ہے

کیا کچھ نہیں ملتا ہے بھلا آپ کے در سے

ثانی ترا کونین کے کشور میں نہیں ہے

یہ دنیا ایک سمندر ہے مگر ساحِل مدینہ ہے

بیڑا محمد والا لیندا اے تاریاں