کس کا نظام راہ نما ہے افق افق

کس کا نظام راہ نما ہے افق افق

کس کا دوام گونج رہا ہے افق افق


شانِ جلال کس کی عیاں ہے جبل جبل

رنگِ جمال کس کاجما ہے افق افق


کس کے لیے نجوم بکف ہے روش روش

بابِ شہود کس کا کھلا ہے افق افق


کس کے لیے سرودِصبا ہے چمن چمن

کس کے لیے نمودِ ضیا ہے افق افق


مکتوم کس کی موجِ کرم ہے صدف صدف

مرقوم کس کا حرفِ وفا ہے افق افق


کس کی طلب میں اہلِ محبّت ہیں داغ داغ

کس کی ادا سے حشر بپا ہے افق افق


سوزاں ہے کس کی یاد میں تائؔب نفس نفس

فرقت میں کس کی شعلہ نوا ہے افق افق

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

اے خدا! سارے جہاں کو ہے بنایا تو نے

تُو خالق بھی مالک بھی ہے بحروبر کا

اے خدا! اپنے نبی کی مجھے قربت دے دے

یہ بلبل ،یہ تتلی، یہ خوشبو بنا کر

گل و لالہ کی تحریروں میں بس فکرِ رسا تُو ہے

یا رب ثنا میں کعبؓ کی دلکش ادا مل

جو اسمِ ذات ہویدا ہوا سرِ قرطاس

اُٹھا کے ہاتھ اُسی کو پکارتا ہوں میں

حمد کب آدمی کے بس میں ہے

زباں پر ہے نام اُس حیات آفریں کا