اُٹھا کے ہاتھ اُسی کو پکارتا ہوں میں

اُٹھا کے ہاتھ اُسی کو پکارتا ہوں میں

مقام جس کا ہے میری رگِ حیات کے پاس


کیا یہ خاص کرم اس نے نوعِ انساں پر

بنا دیا جو حبیبؐ اپنا غمگسارِاناس


حبیبؐ وہ جو بنا کائنات کا نوشاہ

رسوؐل وہ جو ہُوا اس کی شان کا عکاّس


حبیبؐ وہ جو محّمدؐ بھی ہے تو احمدؐ بھی

سکھاگیا جو خدائی کو حمد و شکر و سپاس


نبیؐ وہ جس کے لیے محملِ زمانہ رکا

نبیؐ وہ جس نے کیا لا مکان میں اجلاس


کتاب اُس پہ اتاری تو وہ کتابِ مُبیں

جو نورِرُشد و ہدایت ہے، قاطعِ وسواس


اُسی نے مدحِ رسالت مآبؐ کی خاطر

دیا گداز لب و لہجہ کو، زباں کو مٹھاس


کرم ہو شاملِ حال اُس کا تو ہے اک نعمت

وگرنہ کربِ مسلسل ، طبیعتِ حسّاس


کوئی قریب سے کہتا ہے میں ہوں تیرے ساتھ

ہجوِم غم میں کسی وقت بھی جو دل ہواُداس


تسلّیاں مجھے ہر آن کوئی دیتا ہے

نہ کر سکیں گے ہراساں مجھے کبھی غم ویاس


عجیب ذکرِ الہٰی میں ہے اثر تائبؔ

مٹائے زیست کی تلخی ، بجھائے روح کی پیاس

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

یہ بلبل ،یہ تتلی، یہ خوشبو بنا کر

گل و لالہ کی تحریروں میں بس فکرِ رسا تُو ہے

کس کا نظام راہ نما ہے افق افق

یا رب ثنا میں کعبؓ کی دلکش ادا مل

جو اسمِ ذات ہویدا ہوا سرِ قرطاس

حمد کب آدمی کے بس میں ہے

زباں پر ہے نام اُس حیات آفریں کا

الٰہی شاد ہوں میں تیرے آگے ہاتھ پھیلاکر

تُو خالق ہے ہر شے کا یا حّیُ یا قیّوم

پرچمِ حمد اڑاتا ہوں میں